لاہور مجھے مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ اس کی قدیم تاریخ، اس کی گلیوں میں اڑتی ہوئی غزنوی، غوری اور تغلق لشکروں کی دھول، ان کی تلواروں سے قتل ہونے والوں کی کراہیں اور ان کے چنگل میں پھڑپھڑاتی ہوئی عورتوں کی آہیں۔ تمام مناظر آنکھوں میں زندہ ہوجاتے ہیں۔ مغل بھی فاتحوں کے انداز سے آئے تھے اور پھر لاہور کے ایسے اسیر ہوئے کہ اس کے در و بام پر اپنے نقش چھوڑ گئے جو آج بھی سانس لیتے ہیں۔
یہاں نورجہاں ایک معتوب اور معزول ملکہ ہونے کے باوجود اپنے محبوب جہانگیر کا شایانِ شان مقبرہ تعمیر کراتی ہے اور خود ایک ایسی قبر میں سوجاتی ہے جس پر خود اس کے کہنے کے مطابق یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ برمزار ما غریباں نے چراغے، نے گُلے، نے پر پروانہ سوزد، نے صدائے بلبلے۔ نادر شاہ درانی اور احمد شاہ ابدالی نے اس لاہور کو کس طرح نہیں روندا جس کی آبادی میں مسلمان بہت زیادہ تھے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسی لاہور میں اپنا دربار سجایا اور اسے لاہور کی تاریخ کا ایک یادگار باب بنادیا۔ اور پھر آج کا لاہور جہاں پھولوں نے سرخ، عنابی ،اودے اور نیلے پیرہن پہن رکھے ہیں، جہاں فوارے اچھلتے ہیں اور برابر سے گزرنے والوں کو اپنی پھوار میں بھگودیتے ہیں۔
یہاں کے تعلیمی اور تہذیبی ادارے صدیوں کی تاریخ رکھتے ہیں اور اسی لیے لاہور مجھے مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے۔ وہاں سے کوئی دعوت آئے تو دل شاد ہوتا ہے اور دعوت بھی اگر ہماری طرح دار شاعرہ یاسمین حمید کی طرف سے ہو جن کی دل گداز شاعری اپنا ایک خاص اسلوب رکھتی ہے اور جنہوں نے کئی برس سے لمز کے گرمانی سینٹر برائے زبان و ادب کا انتظام و انصرام سنبھالا ہے اور اپنی ذمے داریاں بہ حسن وخوبی نباہ رہی ہیں۔
مضمون کا بقیہ حصہ پڑھیے